اُوپری ستائش کا نوحہ LAMENT, URDU/HINDI FLASH FICTION POD CAST

Mar 10, 2015, 02:56 PM

اُوپری ستائش کا نوحہ ان شا میں نے کیمبرج پہنچتے ہی اپنا سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھا اور سیاحانہ چہل قدمی کا ارادہ لیے ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ قدیم و جدید عمارتوں کاپروقار امتزاج لیے،غیر مصروف سڑک میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ ابھی میں خنک ہوا اور کہر آلود شام کی اداسی اوڑھے کچھ ہی دور چلا ہوںگا کہ اک خیال نے میرا کاندھا تھپتھپایا اور دھیمی سرگوشی میں کہا۔ نوحہ لکھو۔ ان کہی اور اس خواب کا نوحہ کہ جنہیں نہ لفظ مل سکے اور نہ تعبیر ۔ ان لمحوں کا نوحہ کہ جو روز مرہ کی بے رنگ وارداتیں سمیٹے بیت گئے ، لیکن کسی خوش گوار یا پر ملال یاد کا حصہ نہ بن سکے ۔ لکھی گئی ان زندہ اور روشن تحریروں کا نوحہ کہ جو اب لائبریری کے چپ چاپ گوشوں میں مجلد صفحوں کی افسردگی اوڑھے پڑھنے والوں کا انتظار کرتی ہیں۔ میں نے سنی کو ان سنی کیا۔ اور ذرا دیر رک کر اپنے بائیں ہاتھ کی ایک پر وقار قدیم عمارت کو دیکھنے لگا۔ ہلکے سیاہی مائل چوڑے اور چوکور پتھروں سے تعمیر شدہ کئی صدیوں پرانی ایک پُر شکوہ عمارت۔ اونچی دیواریں، ستون ،محرابیں، قدیم لکڑی سے بنا قابل دید دروازہ اور منقش رنگین شیشوں سے آراستہ کھڑکیاں۔ ستائش اور میں کچھ دیر ہاتھ تھامے وہاں کھڑے رہے۔ اور پھر میں آگے چل دیا۔ خیال نے پھر سرگوشی کی۔ سیل زمانہ سے ہارے ہوئے اُن ان گنت عام لوگوں کا نوحہ کہ جو زندگی کی مسافت سے ہو کر گزرے ، لیکن تاریخ عالم میں اب نہ کوئی نام ہے اور نہ کوئی نشان۔ میرے قدم تیز ہو گئے۔ رکے تو میرے سامنے ایک زیر تعمیر نئی عمارت کی بنیادیں تھیں۔ بڑے سے پلاٹ میں بہت گہری کھودی ہوئی بنیادیں۔ لوہے کے جنگلوں کا بچھا ہوا آہنی جال اور اُنہیں مظبوطی سے تھامے کنکریٹ بلاکس۔ توانائی قوت اور پائیداری کی علامت بنے ۔ کچھ ہی دنوں میں یہ مظبوط بنیاد موجود ہونے کے باوجود ، ایک عالیشان عمارت کے نیچے دب کر نظروں سے اوجھل ہو جائے گی ۔ بصارت کی اوپری ستائش محض پر شکوہ درو دیوار اور منقش شیشوں کو چوم سکے گی۔

اس بار میں نے خیال کے شانے کو تھپتھپایا اور کہا۔ میں نوحہ لکھوں گا . اس اوپری ستائش کا نوحہ کہ جس کی محدود بصارت نے اسے گہری بنیادوں تک نہ پہنچنے دیا۔

شارق علی www.valueversity.com